ایڈیٹرہفت روزہ ریاست دہلی (تقسیم ہند سے قبل) دیوان سنگھ مفتون برصغیر کا ایک مشہور اور انقلابی نام ہے۔ انہوں نے جیل میں زندگی کے جو سچے مشاہدات اور تجربات بیان کیے وہ قارئین کی نذر ہیں۔آپ بھی اپنے تجربات لکھئے۔
بعض لیڈر اور اخبار نویس زندگی بھر روتے رہے اور پبلک پر قدر نا شناسی کا الزام لگا کر ہمیشہ ہی چلاتے رہے کہ روپیہ نہیں کام کیونکر کریں مگر راقم الحروف کا صرف اپنی ذات کے متعلق نہیں بلکہ دوسرے تمام لیڈروں اور اخبار نویسوں کے متعلق بھی یہ تجربہ ہے کہ اگر اخلاص اور ایمانداری کیساتھ کام کیا جائے تو پبلک‘ روپیہ کی تھیلیاں اور کرنسی نوٹوں کے بنڈل لے کر کام کرنے والوں سے درخواستیں کرتی ہے کہ قبول کر لو اور اگر کوئی لیڈر یا اخبار نویس خود غرض ہے تو وہ روپیہ کیلئے لوگوں کے پیچھے مارا مارا پھرتا ہے مگر اس کو روٹی کا ایک ٹکڑا نصیب نہیں ہوتا آپ دیکھئے کیا مہاتما گاندھی ‘ پنڈت جواہر لال نہرو ‘ مسٹر جناح ‘ ماسٹر تارا سنگھ یا دوسرے مخلص کام کرنے والوں کو پبلک کام کیلئے کبھی روپیہ کی کمی ہوئی اور اگر کبھی انہوں نے ہاتھ پھیلایا تو کیا لاکھوں اور کروڑوں روپیہ ان کے پاس نہیں پہنچ گیا۔ ان لیڈروں کو بھی چھوڑئیے مولانا ظفر علی خان جیسے اخبار نویسوں کو شروع شروع میں پبلک نے کتنا روپیہ ضمانتوں کیلئے دیا۔ ہمارے اس لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کام کرنے والے لوگ اپنی ذاتی اغراض سے بلند رہ کر اخلاص کے ساتھ پبلک کا کام کریں تو ان کو روپیہ کی کبھی بھی کمی نہیں ہوتی اور اگر مقصد پبلک روپیہ سے ذاتی جائیدادیں بنانا ہو تو پھر پبلک سے روپیہ کی توقع کرنا بے انصافی ہے۔ پبلک روپیہ کیوں دے۔
کئی برس کی بات ہے کہ ”ریاست“ کو جاری ہوئے شاید چار ماہ ہوئے ہوں گے۔ دفتر ” ریاست“ جامع مسجد کے بالکل سامنے مچھلی والابازار کی ایک بلڈنگ میں تھا۔ دوپہر کا وقت تھا ایک بارعب جسم مسلمان سوٹ پہنے تشریف لائے ان کے ساتھ دو ملازم بھی تھے۔ ایڈیٹر ”ریاست“ نے سمجھا کہ شاید پولیس کے کوئی افسر ہیں اور وارنٹ لے کر آئے ہیں۔ آپ نے آتے ہی پوچھا کہ سردار دیوان سنگھ کہاں ہیں‘ راقم الحروف نے جواب دیا فرمائیں میں ہی دیوان سنگھ ہوں۔ میرے پاس کاتب اور دفتر کے سٹاف کے دوسرے لوگ بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہوں‘ دفتر کا ایک ہی بڑا کمرہ تھا میں ان کو برآمدہ میں لے گیا۔ وہاں ہم کھڑے تھے کہ آپ نے جیب سے ایک بند لفافہ نکال کر مجھے دیا اور کہا: ” میں آپ کے اخبار کا ایک معترف ہوں‘ یہ لفافہ آپ کے اخبار کی امداد کے لئے ہے“۔ میں نے پوچھا آپ کون صاحب ہیں اور دہلی کیسے تشریف لائے ہیں ‘ آپ نے بتانے سے انکار کردیا اور چلے گئے اس واقعہ کے ایک سال بعد معلوم ہوا کہ آپ یو پی کے ایک خان بہادر اور ڈپٹی کلکٹر پنشنر تھے۔ ستمبر 1943ءمیں جیل سے رہا ہو کر آیا اور اخبار جاری کرنے کی کوشش میں تھا تو دریا گنج ایک جرنلسٹ دوست سے ملنے گیا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں اور جب چلنے لگا تو آپ نے جو الفاظ کہے ان کو میں شاید آئندہ زندگی میں کبھی بھی بھول نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: ” پچھلے زمانہ میں ایک بہت بڑا یگیہ ہوا جس میں لاکھوں یا کروڑوں روپے صرف ہوئے۔ ایک کوا اپنی چونچ میں ایک چاول لے آیا اور اس یگیہ میں ڈال دیا تاکہ وہ یگیہ کی خدمت اور سعادت سے محروم نہ رہ جائے” ریاست“ کا دوبارہ جاری ہونا بھی ایک یگیہ ہے اس لئے میری درخواست ہے کہ اس کیلئے یہ رقم فوری قبول کر لیجئے۔“ خلوص و محبت کے ان الفاظ کو سن کر مجھ پر ایک ناقابل بیان کیفیت سی طاری ہو گئی ۔ میں نے کہا کہ ان الفاظ کی قیمت کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ ہے۔ میں روپیہ نہیں لیتا آپ نے بار بار زور دیا اور میں انکار کرتا واپس چلا آیا۔ آپ پھر بھی باز نہ آئے اور آپ نے اپنے دفتر کے ایک آدمی کے ہاتھ چیک بھیج دیا۔
میرے اس لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پبلک کا کام کرنے والے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کو کام کرنے کیلئے روپیہ نہیں ملتا ۔ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور ان میں اخلاص اور ایمانداری کی کمی ہے۔ پبلک آواز پبلک کام کرنے والوں کے ایمان اور اخلاص کا سب سے بڑا تھرما میٹر ہے اور کام کرنے والوں کے ایمان کا پتہ پبلک آواز سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ پبلک آواز کبھی غلط نہیں ہوتی۔ کام کرنے والوں کا جیسا اعمالنامہ ہوگا ویسی ہی ان کے متعلق آواز اور شہرت ہو گی۔
گاندھی جی نے اپنی زندگی میں کبھی کسی شخص سے یہ نہیںکہا کہ وہ نیک ہیں مگر کیا دنیا میں ایک شخص بھی ایسا ہے جو ہزار اختلافات کے باوجود آپ کو نیک نہ سمجھے بر خلاف اس کے خواجہ حسن نظامی اپنے اخبار منادی میں دن رات اپنی تعریفیں کرتے تھے۔ مگر کیا یہ ایک شخص بھی آپ کو ایسا ملے گا جو آپ کو سیاسی چار سو بیس اور مذہبی فراڈ نہیں سمجھتا ہو یعنی دنیا میں نیک کہلوانے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ نیک بننا چاہیے ۔ انسان نیک ہو گا تو دنیا خود بخود نیک کہے گی۔ اسی طرح جو لوگ پبلک کے روپیہ کو ٹرسٹ اور امانت سمجھیں گے۔ اس کو اپنی ذاتی اغراض کیلئے استعمال نہ کریں گے۔ ان کو پبلک کاموں کیلئے روپیہ کی کبھی کمی نہیں ہو سکتی اور جو لوگ چار سو بیس کے ذریعے پبلک کی جیب خالی کر کے اپنی ذاتی جائیدادیں بنا لیں گے وہ ہمیشہ گداگر رہیں گے اور ان کے کاسہ میں ٹکڑا پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ کمزوری اگر ہے تو ہم کام کرنے والوں میں نہ کہ پبلک میں یعنی جو لوگ قومی میدان میں کام کرنا چاہتے ہیں انہو ں نے اگر اخلاص اور ایمانداری کا ساتھ نہ چھوڑا تو روپیہ ان کے ساتھ ہے اور اگر ان کی پبلک لائف میں خود غرضی اور بے ایمانی ہے تو ان کیلئے پبلک کے پاس روپیہ ہے نہ شہرت۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں